غزل ۔۔۔ ثروت پرویز

تم گر سن لیتے تو اچھا تھا، ہم خوش ہو لیتے تو اچھا تھا،
کچھ دل کی باتیں کہہ دیتے، کچھ دل کی سنتے تو اچھا تھا۔

یوں خواب ادھورے نہ رہتے، یوں اشک نہ بینا ہوتے،
کچھ پل تم بھی مسکرا دیتے، کچھ پل ہم بھی جیتے تو اچھا تھا۔

یوں درد کے قصے کم ہوتے، یوں راتیں بےخواب نہ ہوتیں،
اک لمحہ پاس بٹھا لیتے، اک لمحہ دیتے تو اچھا تھا۔

ہم بھی سمجھتے دل کی باتیں، تم بھی کچھ احساس کرتے،
کچھ اپنی زباں سے کہہ دیتے، کچھ دل سے بولتے تو اچھا تھا۔

یوں فاصلے کم ہو جاتے، یوں رنجشیں بھی مٹ جاتیں،
اک پل کو نظریں ملا لیتے، اک پل کو ملتے تو اچھا تھا۔

ماضی کی ان گلیوں میں، یادوں کے کچھ دیپ جلے ہیں،
تم گر پلٹ کر دیکھ لیتے، ہم بھی پلٹتے تو اچھا تھا۔

اب تو بس یہ حسرت باقی ہے، اب تو بس یہ خواب ادھورے ہیں،
تم گر سن لیتے تو اچھا تھا، ہم خوش ہو لیتے تو اچھا تھا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Cart
  • Your cart is empty.
Review Your Cart
0
Add Coupon Code
Subtotal

 
Scroll to Top